سمندروں کو اگر ڈوبنے سے دیکھوں گا
ندی کو کیسے کسی آسرے سے دیکھوں گاترے قریب بدن کانپتا رہا ہے مرا
میں اب کی بار ذرا فاصلے سے دیکھوں گا
تمہارا مسئلہ کیا ہے سمجھ گیا ہوں مگر
تمہارا حل کوئی دم پھونکنے سے دیکھوں گا
کل اس نے پوچھا مجھے وصل کا تو میں نے کہا
کمر سے پکڑوں گا اور آئنے سے دیکھوں گا
کبھی نہ ماروں گا میں سنگ سنگ کے بدلے
میں اس کا ظرف اسے بخشنے سے دیکھوں گا
میں جس سے دیکھی نہیں جاتی زندگی شاہدؔ
میں اپنی موت کو کس حوصلے سے دیکھوں گا
Comments
Post a Comment