سبھی عطاؤں کا محور سنائی دیتا ہے
دکھائی دیتا نہیں گھر،سنائی دیتا ہے
کبھی کبھی وہ بلاتا ہے نام لے کے مجھے
کبھی کبھی مجھے بہتر سنائی دیتا ہے
سہانا خواب رہی ہے تمھاری خاموشی
وگرنہ شور تو اکثر سنائی دیتا ہے
یہ معجزہ ہی تو ہے،تم سے گفتگو کے سمے
ہماری آنکھ کو منظر سنائی دیتا ہے
بڑے وثوق سے کہتا ہے ساتھ جینے کا
پر اس کے لہجے سے اک ڈر سنائی دیتا ہے
وہ اور ہوں گے جنہیں ہجر وجہِ گریہ ہے
میں وہ نہیں جو بکھر کر سنائی دیتا ہے
کوئی بھی بات کرو پر نقاب اٹھا کے کرو
مجھے خمار میں جا کر سنائی دیتا ہے
مرے علاوہ ترے زخم کو بھرے گا کون؟
مجھے پرانا رفو گر سنائی دیتا ہے
Comments
Post a Comment