* اُسکی پلکوں سے نيند چَھنتی تھی *
ميں نے ديکھا تھا اُن د نوں ميں اُسے
جب وہ کھِلتے گلاب جيسا تھا
اُسکی پلکوں سے نيند چَھنتی تھی
اس کا لہجہ شراب جيسا تھا
اُسکی زلفوںسے بھيگتی تھی گھٹا
اسکا رُخ ماہتاب جيسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال وخد اس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا
بولتا تھا زبان خوشبو کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اسے
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
ساری آنکھیں تھیں آ ئنے اس کے
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا
اک دریا نما سراب تھا وہ
خواب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا
ٰیہ حقیقت ہے کویٔ خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورت سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیند یں ا سی کی نذر ہویٗں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
ٰیہ مگر دیر کی کہا نی ہے
یہ مگر دُور کا فسانہ ہے
اُ سکے میرے مِلاپ میں حایٔل
اب تو صد یوں بھرا زمانہ ہے
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر اِن دنوں وہ کیسا ہے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اسے
محسن نقوی
Comments
Post a Comment