ہلکی آواز میں بولے
بیٹا کل کیا منگل ہوگا؟
گردن موڑے بِن ، میں بولا
بابا کل تو بُدھ کا دن ہے
بابا جانی سُن نہ پائے
پھر سے پوچھا، کل کیا دن ہے
تھوڑی گردن موڑ کے میں نے
لہجے میں کچھ زہر مِلا کے
منہ کو کان کی سیدھ میں لا کے
دھاڑ کے بولا بُدھ ہے بابا
آنکھوں میں دو موتی چمکے
سُوکھے سے دو ہونٹ بھی لرزے
لہجے میں کچھ شہد ملا کے
بابا بولے بیٹھو بیٹا
چھوڑو دِن کو، دِن ہیں پورے
تم میں میرا حصّہ سُن لو
بچپن کا اِک قصّہ سُن لو
یہی جگہ تھی میں تھا تُم تھے
تُم نے پوچھا، رنگ برنگی
پھولوں پر یہ اُڑنے والی
اس کا نام بتاؤ بابا
گال پہ بوسہ دے کر میں نے
پیار سے بولا تتلی بیٹا
تُم نے پوچھا، کیا ہے بابا؟؟
پھر میں بولا تتلی بیٹا
تتلی تتلی کہتے سُنتے
ایک مہینہ پُورا گزرا،
ایک مہینہ پوچھ کے بیٹا
تتلی کہنا سیکھا تُو نے
ہر اِک نام جو سیکھا تو نے
کِتنی بار وہ پوچھا تو نے
تیرے بھی تو دانت نہیں تھے
میرے بھی اب دانت نہیں ہیں
باتیں کرتے کرتے تُو تو
تھک کے گود میں سو جاتا تھا
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا
بُوڑھے سے اِس بچے کے بھی
بابا ہوتے سُن بھی لیتے
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا۔ز
Comments
Post a Comment