میرا جوشِ جنوں والہانہ ہوا،تلخ پھر زندگی کا فسانہ ہوا
اُس سے بچھڑے ہوئے اک زمانہ ہوا،جس کے تیرِ نظر کا نشانہ ہوا
اپنی فطرت سے مجبور ہوں اس لئے،سرکشی سے ہمیشہ گریزاں رہا
کرسکا میں تجاوز نہ حد سے کبھی،اس کا جو وار تھا جارحانہ ہوا
کام آیا نہ کچھ میرا سوزِ دروں،وہ بڑھاتا رہا میرا جوشِ جنوں
مرغِ بسمل کی صورت مرا حال تھا،جذبۂ عاشقی قاتلانہ ہوا
تھا وہ صیاد ہردم مری گھات میں،کررہا تھا تعاقب جو برسات میں
دامِ تزویر میں اُس کے میں آگیا،دشمنِ جاں مرا آب و دانہ ہوا
تھی سکونت نہ اُس کی کبھی دیرپا،آمد و رفت کا وقت کوئی نہ تھا
کوئی رہتا نہیں ہے جہاں مستقل،دل مرا ُس کا مہمان خانہ ہوا
خواب میں میرے اکثر وہ آتا رہا،ویسے مجھ سے وہ نظریں چراتا رہا
اُس کے ناز و ادا تھے حیات آفریں،جو بھی سرزد ہوا غائبانہ ہوا
امجد اسلام امجدؔ کا رنگِ سخن،عہدِ حاضر میں ہے مرجعِ اہلِ فن
دلنشیں اُن کا اسلوب اس بحر میں، اِس غزل کا میری شاخسانہ ہوا
کھا رہا تھا میں اُس کا فریبِ نظر،خانۂ دل کے تھے منتظر بام ودر
کام آئی نہ کچھ سادہ لوحی مری،کارگر اُس کا برقیؔ بہانہ ہوا