وہ چاہتا نہیں مجھے اتنی کمی تو ہے
میں چاہتا ہوں اس کو محبت یہی تو ہے
محرومیٔ حیات میں زندہ دلی تو ہے
زندہ ہوں میں کہ مجھ میں غمِ زندگی تو ہے
گو آنکھ میری تر نہیں لیکن نمی تو ہے
سوکھی ہوئی ندی ہی سہی پر ندی تو ہے
چھائی ہوئی ہے دھند مگر روشنی تو ہے
دے یا نہ دے دکھائی نگہ دیکھتی تو ہے
قائم ابھی جہاں میں ہے نسبت کا سلسلہ
اس کی خدائی اور مری بندگی تو ہے
ٹھہرا سراپا اس کا مری ذات کا بدل
کچھ اور بدر ہو کہ نہ ہو سادگی تو ہے