گم ترے پاس میں ہوجائوں اندھیرا کردے
زلف کا سایہ ذرا اور گھنیرا کردے
ہو چکا ختم کھڑا پائوں پہ ہونے کا چلن
ہو سکوں جس پہ کھڑا ہاتھ وہ میرا کردے
میرا سایہ بھی بکھر جائے اجالا بن کر
مہر مصروفیت اک ایسا سویرا کردے
زہر سے کھیلنا بھی سہل ہے فکر زر میں
پیسہ وہ شے ہے کہ انساں کو سپیرا کردے
شام ہوجائے اگر جل گیا دن بھر سورج
رات بھر شمع جو جل جائے سویرا کردے
خواب سے پہلے ہی تعبیر مرے سامنے ہو
ایسا اے بدر مجھے جاگنا میرا کردے