مری حیات میں الفت کہاں سے آ جاتی
تھا غم نصیب، مسرت کہاں سے آ جاتی
نہ ہوتا نفس تو چاہت کہاں سے آ جاتی
نہ ہوتا دل تو عقیدت کہاں سے آ جاتی
نہ ہوتی عقل تو حیرت کہاں سے آ جاتی
نہ ہوتی روح تو حکمت کہاں سے آ جاتی
ٹکا ہوا ہے یہ عالم کشش کے محور پر
کشش نہ ہوتو محبت کہاں سے آ جاتی
اسے پتہ ہے کہ وہ حسن کا ذخیرہ ہے
نہ جانتا تو نزاکت کہاں سے آ جاتی
حقارتوں نے سفر کر لیا ہے ہونٹوں تک
وگرنہ لہجے میں شدت کہاں سے آ جاتی
نہ ہوتی شام توآتی کہاں سے یہ ٹھنڈک
نہ ہوتی صبح تو حدت کہاں سے آ جاتی
قناعتوں کا اگر ہوتا غلبہ فطرت پر
ابھر کے لب پہ شکایت کہاں سے آ جاتی
یقین کا ابر مری روح پر بھی برسا ہے
وگرنہ دل میں صداقت کہاں سے آ جاتی
نہ کوئی نظم_ امارت نہ کوئی شوق_ جہاد
خدائے پاک کی نصرت کہاں سے آ جاتی
ہے زعم زن کو کہ مرد آیا بطن سے اس کے
نہ آتا مرد تو عورت کہاں سے آ جاتی
ترے مزاج میں ہوتی نہ شاعری جاوید
تو یہ لطیف نفاست کہاں سے آ جاتی