نہیں خود کوئی شے نکلے اندھیرے
اجالے چھپ گئے، آئے اندھیرے
ہوئے رو رو کے پاگل سے اندھیرے
کسی کی یاد کے مارے اندھیرے
شفق نے آنکھ کھولی ہے ذرا سی
ادھر دوڑے ادھر بھاگے اندھیرے
اجالے چبھتے ہیں آنکھوں میں میری
مجھے لگنے لگے اچھے اندھیرے
مشقت کیجئے گا خوب دن بھر
لگیں گے رات بھر میٹھے اندھیرے
چلی سرگوشیاں ان سے سحر تک
نہ گونگے ہیں نہ ہیں بہرے اندھیرے
نہ چہرہ ہے نہ انکا عکس کوئی
بھلا دیکھیں گے کیا شیشے اندھیرے
کھلا آنکھوں کو رکھ پائیں گے کب تک
سلا کرکے ہی دم لینگے اندھیرے
ہیں جانے تجھ سے کیوں جاوید نالاں
کئے ہی جاتے ہیں شکوے اندھیرے