بھٹکا نہ بھوکا پیاسا اکیلا کہاں کہاں
دیوانہ وار تجھ کو نہ ڈھونڈھا کہاں کہاں
سیمابیء مزاج نے آوارہ کر دیا
دن رات پھرتا رہتا ہوں تنہا کہاں کہاں
اچھا یہی ہے گھر میں رہیں امن و چین سے
باہررہیں گے محو تماشا کہاں کہاں
زخمی ہوئے عوام کے جذبات آج پھر
ہو گا نہ جانے خون خرابا کہاں کہاں
جا کر نہ جانے بیٹھا ہے کس آسمان پر
ڈھونڈھا نہیں ہے تجھ کو مسیحا کہاں کہاں
آخر میں نکلا دل ہی میرا رہنماے حق
اور میں پھرا نہ جانے بھٹکتا کہاں کہاں
میں ابر بن کے جاؤنگا جاوید ہر جگہ
اتنا بتا دے صرف ہیں صحرا کہاں کہاں