ہے التجا یہ تم سے پہلا سا پیار دے دو
کھوئے ہوئے سرُوں کو نغمے ہزار دے دو
اک بار پھر سے آکر سیراب مجھ کو کردو
برسات اُلفتوں کی پھر بے شمار دے دو
بھولا نہیں ہوں اب تک منظر وہ قربتوں کے
پھر سے سجادو گلشن مہکی بہار دے دو
پھر تا ہوں مضطرب میں تھمتے نہیں ہیں آنسو
بے چین کب سے دل ہے اس کو قرار دے دو
ہے عشق جرم میرا، اُلفت میں قید کرلو
بانہوں کا اپنی مجھ کو ایسا حصار دے دو
موسم ہزار بدلیں، تم جام بھرتے جائو
میں ہوش میں نہ آئوں ایسا خمار دے دو
مالا جپے یہ ہر دم بس نام کی تمہارے
فائیز کی زندگی کو وہ اعتبار دے دو