ہر شخص چاہتا ہے اسے آشیاں ملے
اورآشیاں میں خلد_ بریں سا سماں ملے
ہر تحفه خاص ہوتا ہے لیکن وہ خاص شخص
اک پھول دے گیا تو لگا دو جہاں ملے
جی چاہتا ہے دیکھ لوں جی بھر کے پیار سے
بچھڑے گا آج وہ تو نہ جانے کہاں ملے
چلتے رہے تو آ گئے منزل کےآس پاس
رستہ میں لاکھوں ٹھہرے ہوئے کارواں ملے
جو مردہ جسم و جان میں اک روح پھونک دے
تحریک کو نیا کوئی روح _ رواں ملے
جس میں ہو صرف نور, اندھیرا چھپا نہ ہو
ایسی کہیں کوئی نئی اک کہکشاں ملے
جاوید امتحان توآئیں گے بار بار
مشکل خدا کرے نہ کوئی امتحاں ملے