چراغِ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے
جوانوں اب تمہارے ہاتھ میں تقدیر عالم ہے
تمہیں ہوگے فروغ بزم امکاں ہم نہیں ہوں گے
جئیں گے جو وہ دیکھیں گے بہاریں زلف جاناں کی
سنوارے جائیں گے گیسوئے دوراں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے ڈوبنے کے بعد اُبھریں گے نئے تارے
جبیں دھڑ پر چھٹکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے
نہ تھا اپنی ہی قسمت میں طلوع مہر کا جلوہ
سحر ہو جائے گی شامِ غریباں ہم نہیں ہوں گے
مارے دوڑ میں ڈالیں خرد نے اُلجھنیں لاکھوں
جنوں کی مشکل جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے
کہیں ہم کو دکھا دو ایک کرن ہی ٹمٹماتی سی
کہ جس دن جگمگائے گا شبستاں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے بعد ہی خونِ شہیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیب عنواں ہم نہیں ہوں گے