چھیڑ وہ نغمہ اے جنوں جس سے ہو روح مشتعل
مستِ نشاط ہو، دماغ، ولولہ آفریں ہو دل
پھونک دے اے جمال یار ، خرمن آرزو مرا
اپنا مجھے دکھا مگر، جلوہ کیف مستقل
اس کے حریم ناز کا پایہ بہت بلند ہے
کم نہیں اپنا بھی مگر، حوصلہ جبینِ دل
اس کی عنایتیں نہاں ، اس کے ستم میں ہیں مگر
ہو جو نگاہ جلوہ سنج، ہو جو ادا شناس دل
تیرے نشاط درد کی چاہئے ایک لہر، بس
پھر نہ یہ جان ہو ملول، پھر نہ یہ دل ہو مضمحل
جس کا ہر اک ذرہ ہے رقص گہ جمال قدس
ہے وہی آستاں مرا، سجدہ گہہ نیاز دل
ہے وہ شرارِ معنوی ذرہ خاک میں مرے
جلوۂ روح قدسیاں، جس سے ہے پست و منفعل