ٹھکانا مل گیا، دار و رسن سے ہم کو منزل کا
وفور شوق میں ورنہ خدا جانے کہاں جاتے
بڑی مشکل سے سنگِ آستاں سے بچ کے ہم نکلے
جبینِ شوق سے سجدوں کو دھلوانے کہاں جاتے
عنایت ہے یہ طوفاں کی اسی نے آبرو رکھ لی
سفینہ اپنا ہم ساحل سے ٹکرانے کہا ں جاتے
وفا کی شان الفت سے ہے اپنی آبرو باقی
وگرنہ ہم چمن میں آج پہچانے کہاں جاتے
بہاریں ہی نہیں بلکہ خزاں بھی رنگِ قدرت ہے
یہ دنیا گرچمن ہوتی تو ویرانے کہا ں جاتے
عروسِ غم کا احسان کم نہیں ہے حضرت آسیؔ
نہ ہوتی یہ تو اپنے دل کو بہلانے کہاں جاتے