پھر اعتبارِ عشق کے قابل نہیں رہا
جو دل تری نظر سے گرا دل نہیں رہا
نشتر چبھوئے اب نہ پشیمانی نگاہ
مجھ کو تو شکوۂ خلش دل نہیں رہا
موجیں اُبھار کر مجھے جس سمت لے چلیں
حد نگاہ تک کہیں ساحل نہیں رہا
کیا کہئے اب مآل محبت کی سرگزشت
یاد اُس کی رہ گئی ہے مگر دل نہیں رہا
جو دل تری نظر سے گرا دل نہیں رہا
نشتر چبھوئے اب نہ پشیمانی نگاہ
مجھ کو تو شکوۂ خلش دل نہیں رہا
موجیں اُبھار کر مجھے جس سمت لے چلیں
حد نگاہ تک کہیں ساحل نہیں رہا
کیا کہئے اب مآل محبت کی سرگزشت
یاد اُس کی رہ گئی ہے مگر دل نہیں رہا