شب کے طوفان میں کافی یہ سہارا ہوگا
ڈوبنے والوں میں اک صبح کا تارا ہوگا
خلوتِ ناز سے اب تک نہ ملا کوئی جواب
نالے کر بھی ترا ہم نے پکارا ہوگا
کیوں اندھیرے میں رہیں شمع کے جل بجھنے سے
خاک پروانہ میں کوئی تو شرارا ہوگا
یہ بھی دن دیکھنے ہو گے ہمیں معلوم نہ تھا
کہ ترے ہجر میں جینا بھی گورا ہوگا
میری کشتی تہِ گرداب ہے لیکن تابشؔ
پار طوفاں نے کسی کو تو اتارا ہوگا