سب کچھ اس کی عطا میں لکھتا ہوں
بس خدا کو خدا میں لکھتا ہوں
گو کہ مجرم ہوں میں مگر منصف
آپ اپنی سزا میں لکھتا ہوں
شور برپا ہے دل کے صحرا میں
شہر کو بے صدا میں لکھتا ہوں
سن بڑے تجربے کی بات ہے یہ
خود کو بے تجربہ میں لکھتا ہوں
ہے پرانی کتابِ زیست مگر
اک نیا تبصرہ میں لکھتا ہوں
بدر کو کچھ تو آپ بھی لکھئے
شاعر خوش نوا میں لکھتا ہوں