مسافروں سے مذاق ایسا کیوں کیا اس نے
پتہ بتا کے ٹھکانہ بدل لیا اس نے
کتاب لے کے محبت کی گھر سے نکلا تھا
سیاستوں کا سبق کیسے پڑھ لیا اس نے
میں آنسوئوں سے اُگاتا تھا پیڑ خوشبو کے
غزل کے دشت میں مجھ کو بسا دیا اس نے
خطوط لکھنا تو پہلے ہی کر چکا تھا ترک
کبوتروں کو بھی چھت سے اڑا دیا اُس نے
مرے مکاں میں کوئی سانپ چھپ کے بیٹھا تھا
کواڑ کھولے تو دہلیز پر ڈسا اُس نے
مری کشادہ دلی کا کچھ اعتراف کیا
ہر ایک زخم مرے نام کر دیا اس نے
وہ ننگی قبر پہ رویا کچھ اس طرح آکر
مرے مزار کو پھولوں سے ڈھک دیا اس نے
تمام زخمی پرندے پناہ لیتے تھے
بس اس خطا پہ مرا گھر جلا دیا اُس نے
صحیفے ہو گئے ناراض اشک سب مجھ کو
یہ مجھ کو کون سا کلمہ پڑھا دیا اس نے