میری دنیا سے بالکل مختلف جہاں اس کا
ہے زمیں میری دشمن دوست آسماں اس کا
بے زبان یہ بندہ ٹھہرا رازداں اس کا
اس لئے نہیں ہوتا راز کچھ عیاں اس کا
اس قدر مرے گھر سے دور ہے مکاں اس کا
بس خیال ہی تنہا آسکے یہاں اس کا
مہرباں وہ اوروں پر میرے حق میں محرومی
بخشش خدا گویا پیکر بتاں اس کا
ہائے کیا قیامت ہے خود کو غیر لگتا ہوں
اپنے آپ پر جس دم ہوتا ہے گماں اس کا
آدھی جاں اسے دے دی اور پاس ہے آدھی
ٹھہرا حصہ دار ایسا بدر نیم جاں اس کا