دل کی کتاب سے سوکھا پھول اٹھاتا ہوں
رو رو کے خوشبو خوشبو چلاتا ہوں
مجھ کو زندہ رہنے کی بیماری ہے
مر جاتا ہوں تو اچھا ہو جاتا ہوں
شہر دعا کو رستہ کہاں سے مُرتا ہے
نقشہ دے یہ نکتہ میں سمجھتا ہوں
ہاتھ مری کشتی کا پکڑ کر چلتا ہے
میں دریا کو ساگر تک لے جاتا ہوں
ہر دیوار کے پیچھے سو دیواریں ہیں
کتنی دیواریں میں روز گراتا ہوں
بچپن کس دہلیز پہ مجھ کو چھوڑ گیا
یہ کہہ کر ٹھہرو!! میں کھلونے لاتا ہوں
خوشبو کو ناراض نہیں میں کر سکتا
پھول کو ڈرتے ڈرتے ہاتھ لگاتا ہوں
اس سے زیادہ میرا اس سے کیا رشتہ
وہ دکھ دیتا ہے میں شکر مناتا ہوں
اک دن اس کے سامنے اشک میں رویا تھا
اپنے کئے پر آج تلک پچھتاتا ہوں