چاند بردار ہو گیا ہوں میں
دیکھو! فنکار ہو گیا ہوں میں
تجھ کو سوچا ہے اس قدر میں نے
تیرا کردار ہو گیا ہوں میں
درد کا پائوں دل پہ پڑتے ہی
کتنا ہموار ہو گیا ہوں میں
قبر میں گھر بنا لیا میں نے
ہاں ! زمیں دار ہو گیا ہوں میں
شوق سے کھا رہا ہے عشق مجھے
ذائقے دار ہو گیا ہوں میں
میرے سب کار کر رہا ہے وہ
کتنا بے کار ہو گیا ہوں میں
سوکھے موسم کا بین سنتے ہی
میگھ ملہارہو گیا ہوں میں
اک کمینے کی روٹیاں کھا کر
سخت بیمار ہو گیا ہو گیا ہوں میں
میرے سائے میں زخم پلتے ہیں
مثلِ دیوارہو گیا ہوں میں
پھول جب سے ہوئے ہیں قتل مرے
اشک تلوار ہو گیا ہوں میں