دل کہ ہر پل تری قربت کے زمانے مانگے
اور زمانہ تری فرقت کے فسانے مانگے
ایک خدشہ مری آنکھوں کے دریچے پہ رہے
جب مری نیند ترے سپنے سہانے مانگے
کیا غضب ہے کہ یہی دل ہے مراسم کی سبیل
اور یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
اپنی بیتابی کا اظہار میں کرنا چاہوں
اور مرا عہد مسرت کے ترانے مانگے
سادگی ، پیار ، وفا ، چین ، مروت ، اخلاص
تو بھی اس دور میں کیا چیز دِوانے مانگے
میری ہر صبح ترے نام سے روشن ہوجائے
خلوتِ شب تری یادوں کے خزانے مانگے
صرف اقرارِ وفا صرف محبت کی نگاہ
اور کیا اِس کے سوا تجھ سے وفاؔ نے مانگے