اس کی روشنی جب سورج سے بچھڑ جائے گی
پھر وہی شامِ غم سینے میں اتر جائے گی
کس کس نے نہ سنی ہوگی اس قیامت کی کہانی
وہ جس دل سے گزرے گی ٹھہر جائے گی
جینے کا حوصلہ کوئی جلتی شمع سے سیکھے
پروانے کی طرح بے صبرہوئی تو مر جائے گی
ابھی حالات کی تلخیاں کچھ کم ہونے دو
محبت کی زنگ صور ت بھی نکھر جائے گی
مری ناکام آرزو تھک کے گر گئی ہوگی
گریز پا اور کہاں دربدر جائے گی
اپنی حسیں یاد سے کہو آوارہ نہ پھرے
مرے گھر آئی تو سسکیوں سے ڈر جائے گی
میں ہوں گردِ رہ کی طرح جس کے تعاقب میں
وہ ہوا ہے مرے پہلو سے گزر جائے گی