دامانِ تار تار لیے وہ یہاں سے گزر گیا
کیا کیا ستم ہوئے جب وہ اس گھر سے اس گھر گیا
عجب شام تھی وہ اک خونی منظر تھا
چاندنی تھی اداس مرا دل بھی ڈر گیا
جاتے ہوئے آفتاب چھوڑ گیاردائے خوں
تماشا دیکھ کر جیسے دل اسکا بھر گیا
بلا کا ہیجان تھا ستاروں کی دھمک میں
ماہتاب بھی مسکرا کر شرم سے گزر گیا
ملبوس قبائے خضر ہر نخل کو دیکھ کر
دل گردوں کا بھی شبنم سے تر گیا
مثلِ برق آیا تھا وہ مثلِ برق ہی گیا
جانے کہاں سے آیا تھا وہ جانے کہاں ابر گیا
مرے ہر اک سوال میں پنہاں تھا اک جہاں
چشم یزداں بھی حیران تھی کتنے سوال یہ کر گیا
کاش بتاتے صارمِ بے نوا کو کوئی
کیسے یہ نغمہ اس کی زبان سے اتر گیا