رفتہ رفتہ یہ زمانے کا ستم ہوتا ہے
ایک دن روز مری عمر کا کم ہوتا ہے
باغ روتا ہے اسیرانِ قفس کو شاید
دامن سبزہ و گل صبح کو نم ہوتا ہے
ہاتھ رکھے ہے دم نزع جر پر کوئی
اب نہ بڑھتا ہے مرا درد نہ کمہوتا ہے
ایک دن روز مری عمر کا کم ہوتا ہے
باغ روتا ہے اسیرانِ قفس کو شاید
دامن سبزہ و گل صبح کو نم ہوتا ہے
ہاتھ رکھے ہے دم نزع جر پر کوئی
اب نہ بڑھتا ہے مرا درد نہ کمہوتا ہے