کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں
صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں
رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں
زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں
زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز
موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں